Friday, August 9, 2019

Which Govt System Best for Pakistan? Parliamentary or Presidential


بنیادی سوال آج بھی وہیں موجود ہے کہ موجودہ نظام کی افادیت کیا ہے؟ ساڑھے تین سو کے لگ بھگ اراکین قومی اسمبلی اور ایک سو چار سینیٹرز پر مشتمل پارلیمنٹ پچھلے پچاس برس میں کیا تیر مارتی آئی ہے جو اس کی غیرموجودگی میں نہ مارے جاسکتے تھے؟
سینیٹ کو ایوان بالا کہا جاتا ہے جس کا کام قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے بل کو ریویو کرکے منظور یا مسترد کرنا ہوتا ہے۔ دیکھا یہی گیا ہے کہ بہت کم ایسا ہوا کہ سینیٹ نے قومی اسمبلی کے برعکس فیصلہ دیا ہو۔ قومی اسمبلی میں جس جماعت کی اکثریت ہوتی ہے، سینیٹ میں بھی وہی فائدہ اٹھاتی ہے۔ اور اگر یہی بات ہے تو پھر سینیٹ کو فارغ کرکے اربوں روپے سالانہ کیوں نہیں بچائے جاتے؟
اسی طرح صدر اور وزیراعظم کے علیحدہ علیحدہ عہدوں کا بھی کوئی تک نہیں بنتا۔ دونوں میں سے ایک عہدہ ختم کرکے امریکی صدارتی نظام کی طرز پر ملک کا ایک ایگزیکٹو بنایا جائے۔موجودہ صدر ایک نمائشی عہدہ ہے اور اس پر اربوں خرچ کرنے کا کیا جواز ہے.؟ اسی طرح صوبوں میں بھی گورنر ز کی ضرورت نہیں، وزیراعلی صوبے کا چیف ایگزیکٹو ہو اور براہ راست عوام کے منتخب کردہ اراکین اسمبلی کو جواب دہ ہو۔
قومی اور صوبائی اسمبلیاں صرف اور صرف قانون سازی کریں۔ صدر اور وزیرعلی کا انتخاب براہ راست عوام کے ووٹوں سے ہو، جیسے امریکہ میں ہوتا ہے۔ پھر جو بھی صدر بنے، وہ اپنے انتخاب کیلئے اراکین اسمبلی کا محتاج نہیں ہوگا، وہ اپنی مرضی کی ٹیم لاسکے گا جو بہترین ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہوگی اور یوں اراکین اسمبلی و سینیٹ کی بلیک میلنگ ختم ہوجائے گی۔
قومی اسمبلی البتہ صدر کا مواخذہ کرنے کا اختیار رکھے، اگر وہ دو تہائی اکثریت سے صدر کے خلاف مواخذے کی منظوری دے دے تو پھر صدر کو فوری طور پر اپنا عہدے چھوڑنا ہوگا، تین ماہ میں نئے انتخاب ہوں، اگر وہی صدر دوبارہ منتخب ہوجائے تو پھر قومی اسمبلی اپنی باقی کی مدت تک اس کا مواخذہ نہیں کرسکے گی۔ پھر قومی اسمبلی کے دوبارہ انتخابات کے بعد نئی اسمبلی اگر چاہے تو مواخذہ دوبارہ کرلے۔
یہ چیک اینڈ بیلنس کا بہترین نظام ہے۔ اس میں صدر کو نہ تو کسی الکٹیبل کے ترلے منت کرنا پڑیں گے اور نہ ہی کرپٹ جماعتوں سے اتحاد کرنا پڑے گا۔ پورا ملک اس کا حلقہ انتخاب ہوگا۔ ہر صوبے کی آبادی کے لحاظ سے اسے ایلیکٹورل ووٹس دیئے جائیں تاکہ صرف بڑے صوبے سے اکثریت لینے والا پورے ملک کا صدر نہ بن سکے، اس کی مثال کچھ یوں ہے:
پنجاب کی آبادی بالفرض دس کروڑ ہے تو اسے 100 الیکٹورل ووٹ ملیں گے۔ جو امیدوار یہاں سے اکثریت حاصل کرلے، اسے 100 ووٹ مل جائیں گے۔
سندھ کو آبادہ کے لحاظ سے 70 ووٹ ہوں گے، یہاں سے اکثریت حاصل کرنے والا 70 ووٹ لے گا۔
خیبرپختون خواہ کے 55 اور بلوچستان کے 35 ووٹ بنتے ہیں۔
مجموعی طور پر جس کے ووٹ زیادہ ہوں گے وہ صدر بننے کا حقدار ہوگا۔
ملک کو چار صوبوں کی بجائے 16 الیکٹورل کالجز میں بھی تقسیم کیا جاسکتا ہے، اس سے نظام مزید شفاف ہوجائے گا۔
صدارتی انتخاب پانچ سال کی بجائے چار سال یا ساڑھے تین سال بعد کیا جائے۔ قومی اسمبلی کی مدت بھی اتنی ہی ہونی چاہیئے۔
اس نظام میں نہ صرف عوام کے پاس احتساب کرنے کا اختیار زیادہ ہوگا، بلکہ الیکشن میں وڈیروں اور بااثر امیدواروں کا بھی اثرنفوذ ختم ہوجائے گا۔ جمہوریت کی اصل شکل یہی ہے جس میں ملک کا سربراہ عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے، بالواسطہ منتخب ہونے والے وزیراعظم، صدر اور سینیٹ چئیرمین کے مقابلے میں براہ راست منتخب ہونے والا صدر زیادہ اکاؤنٹیبل ہوتا ہے۔ امریکہ، جرمنی اور فرانس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
اپوزیشن اگر واقعی نظام کی بہتری چاہتی ہے تو عمران خان کے ساتھ موجودہ پارلیمانی نظام کا ڈھانچہ بدلنے کیلئے سنجیدہ کوشش کرے۔ اگر ان کے خیال میں نوازشریف یا زرداری ملک کے سب سے مقبول لیڈر ہیں تو پھر انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیئے، آگے بڑھیں اور صدارتی نظام کو نافذ کریں۔ لیکن اگر وہ جانتے ہیں کہ ان کی ساری طاقت صرف بریانی اور قیمے والے نان کھلا کر جیتنے والے اراکین اسمبلی ہیں تو پھر وہ کبھی اس نظام کو بدلنے کی کوشش نہیں کریں گے۔
صدارتی نظام کیلئے اپنی آواز اٹھائیں، ہمارے ملک کیلئے یہی بہتر ہے اور ویسے بھی نظام خلافت کے یہی قریب ترین ہے!!!

No comments:

Post a Comment