Sunday, August 18, 2019

Karachi Mai Mary Jany waly Rehan Ki Kahani



“اپنا ٹائم آئے گا”


یہ جملہ مقتول بچے ریحان کی ٹی شرٹ پر لکھا ھوا تھا، یہ جملہ نہیں تھا خواب تھا اسکا ، ٹین ایجر نوجوانوں کی طرح وہ بھی اچھی زندگی گزارنا چاہتا تھا اسی لئے تو اس نے یہ ٹی شرٹ خریدی تھی ، 
قاتلوں کا کہنا ہے کہ وہ دن دھاڑے چوری کی نیت سے گھر میں داخل ہوا تھا 
عجیب چور تھا جو بغیر چھری چاقو اور پستول کے ایک بنگلے میں داخل ھوگیا اور وہ بھی چٹے دن ؟؟؟
آج کے بچے تو فلمز دیکھ دیکھ کر چالاک ھو کے ہیں پھر یہ کراچی جیسے سپر فاسٹ شہر میں پیدا ھونے والا بچہ اتنا احمق اتنا بے وقوف کیوں تھا ؟ 
اچھا اگر وہ چوری کی نیت سے ہی آیا تھا اور آپ نے اسے پکڑ لیا تھا تو پولیس کو بلا کر حوالہ پولیس کرتے ، 
اسے گھر کی چھت پر لے جا کر جنگلے کے ساتھ زنجیروں سے جکڑ کر پہلے اسکی پینٹ اتار کر اسکی تضحیک کی اسکے بعد مکوں لاتوں ڈنڈوں اورٹھڈوں سے اس معصوم پر تشدد کیا ، پھر موبائل پر اس بچے کی زخمی حالت میں ویڈیو بناتے رہے اور اپنی طرف سے کسی ماہر اینکر پرسن کی طرح سوال و جواب ریکارڈ کرتے رہے ، وہ معصوم منت سماجت کرتا رہا معافی مانگتا رہا ، اللہ اور رسول کے واسطے دیتا رہا مگر ان سفاک قاتلوں نے اس بچے کی ایک نہ سنی ،اور پستول کے بٹ اسکے سر پر مار مار کے اسکی جان لے لی ، اسکا قصور یہ تھا کہ وہ ایک غریب بچہ تھا ، وہ خواب دیکھتا تھا ، وہ اپنا وقت بدلنا چاہتا تھا ، اپنے ماں باپ کا سہارا بننا چاہتا تھا ، 
کیوں ایک بے بس انڈر ایج بچے کو بربریت اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا؟؟
کیوں اسے پولیس کے حوالے نہ کیا گیا؟؟
یہ وہ اہم سوال ہیں جنکا جواب جاننا بہت ضروری ہے ؟
میں بتاتا ھوں تشدد کرنے والے پیٹ بھر کھانے والے لوگ تھے ، خود پرست اور تکبر سے لبریز لوگ تھے ، یہ وہ لوگ تھے جو محلے میں کمزور کو دو تھپڑ لگا کر ٹیکہ شیکہ بناتے ہیں 
یہ پھوں پھاں والے کھوکھلے لوگ ھوتے ہیں ، 
آج سے پہلے بھی سیالکوٹ میں دو بچوں کو ہجوم نے بڑی بے دردی سے سرعام تشدد کر کے مار ڈالا تھا 
اگر اس کیس میں قاتلوں کو نشان عبرت بنا دیا جاتا تو آج یہ بچہ زندہ ھوتا ، میں نے اسکی ماں بہن اور باپ کے بین دیکھے ہیں ، فیس بک پر ویڈیو دیکھی ہے جس میں مقتول بچے کے گھر والے دھائیاں دے رہے تھے اور حکومت سے انصاف مانگ رہے تھے ، یہ مناظر دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسو رواں ھوگئے اور پچھلے دو گھنٹے سے اپنا بلڈ پریشر قابو کرنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر ڈپریشن کی وجہ سے اور صدمے کے باعث فشار خون نارمل نہیں پا رہا ، سوچیں ہمارا غصہ اتنا کیوں بڑھ گیا ہے ؟ ہم اتنے چڑچڑے کیوں ھوگئے ہیں ہم ہر گناہ ہر غلطی کی سزا موت ہی کیوں تجویز کرنے لگے ہیں ؟
اللہ کے بندوں خربوزے چور کو پھانسی نہیں دی جاتی ،
اتنی بے رحمی اتنی نفرت ، اتنی سفاکی؟ توبہ ، خود پولیس خود عدالت خود جج اور خود جلاد کہانی ختم 
آرڈر آرڈر آرڈر آرڈر 
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے دو درجن پڑھے لکھے مسلمانوں نے ایک مسلمان بچے پر چوری کی نیت سے گھر میں داخل ھونے پر اذیت ناک موت کی سزا سنا دی ،
کشمیر پر ہندو ظلم ڈھا رہا ہے چلو دل کو تسلی ھو جاتی ہے کہ ہندو بے دین ہے بت پرست ہے انتہا پرست ہے دوسرے دھرم کا ہے تو بے غیرت ہوگا ،
مگر نوے فیصد مسلمانوں کے ملک میں ایک انڈر ایج مسلمان بچے پر دو درجن مسلمانوں کا تشدد سمجھ سے بالاتر ہے 
کشمیر اور فلسطین کو چھوڑو پہلے خود کو ابلیس کی سوچ سے آزاد کرواو 
اس سوچ سے جو تمہیں درگزر نہیں کرنے دیتی ،
جو تمہیں معافی نہیں دینے دیتی 
جو تمہیں برداشت اور عفو سے کام نہیں لینے دیتی ،
بے شرم ، بےغیرت، نامراد ، سخت دل ، کرخت مزاج اور جھوٹے لوگ جو دوسرے ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کے غم میں گھلے جارہے ہیں اور اپنے دیس میں ھونے والے ظلم پر خاموش ہیں 
تف ہے 
یہ سب کہہ کر بابا دین محمد روتا ھوا پارک سے باہر نکل گیا
اور میں بینچ پر بیٹھا زاروقطار رو رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ میرے آقا سرکار دو عالم رسول اللہ تو غیروں کو معاف کردیا کرتے تھے اور ہم اپنوں کو معاف نہیں کر رہے ؟
اللہ ہمیں آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے 
آمین 

No comments:

Post a Comment